اسلام آباد:
ستائیسیویں آئینی ترمیم کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ سمیت سینیئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں لکھا ہے کہ بطور عدلیہ سربراہ فوری ایگزیکٹو سے رابطہ کریں اور واضح کریں آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی، آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے۔
خط میں جسٹس منصور نے لکھا ہے کہ آپ اس ادارے کے اینڈمنسٹریٹر نہیں گارڈین بھی ہیں، یہ لمحہ آپ سے لیڈر شپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت صرف 6 سال کے لیے بنائی جانا تھی اور اس وقت پرویز مشرف کا آمرانہ دور ختم ہوا تھا۔
جسٹس منصور نے لکھا کہ اس وقت ملک میں کون سا آئینی خلا ہے؟ اس وقت آئینی عدالت کے قیام کی کیا ضرورت ہے؟ عدلیہ سے مؤثر مشاورت نہیں کی گئی۔ امریکا، برطانیہ، جاپان اور آسٹریلیا میں ایک ہی ایپکس کمیٹی کورٹ ہوتی ہے۔
خط میں جسٹس منصور نے لکھا ہے کہ مضبوط جمہوری ممالک میں الگ آئینی عدالت کی ضرورت نہیں ہوتی، زیر التوا مقدمات میں سے 82 فیصد ضلع کچہری میں ہیں، التوا کو آئینی عدالت کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔
فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ
سینیئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز کے خط میں چیف جسٹس سے فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط پر جسٹس (ر) مشیر عالم، مخدوم علی خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، جسٹس (ر) ندیم اختر، اکرم شیخ، انور منصور، علی احمد کرد، خواجہ احمد حسین اور صلاح الدین احمد کے دستخط شامل ہیں۔
سینیئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز نے خط میں کہا ہے کہ بطور سپریم کورٹ ترمیم پر ردعمل دیا جائے، سپریم کورٹ ترمیم پر اپنا اِن پٹ دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
خط کے متن کے مطابق ہم غیر معمولی حالات میں یہ خط لکھ رہے ہیں، سپریم کورٹ اپنے قیام کے بعد آج سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے، کوئی سول یا فوجی حکومت سپریم کورٹ کو اپنا ماتحت ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
خط میں لکھا ہے کہ ماضی میں ایسی کوئی کوشش بھی نہیں ہوئی، اگر آپ متفق ہیں یہ پہلی کوشش ہے تو رد عمل دینا سپریم کورٹ کا حق ہے۔












